اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃاللہ علیہ
- Admin
- Sep 28, 2021
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃاللہ علیہ کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؒ خاں بن مولانا نقی علی ؒخاں بن مولانا رضا علی ؒخاں بن حافظ کاظم علیؒ خاں بن شاہ محمد اعظم ؒخاں بن شاہ محمد سعادت یار ؒخاں بن شاہ محمد سعید اﷲ ؒخاں علیہم الرحمۃ آپ ؒکے جد اعلیٰ حضرت شاہ محمد سعید اﷲ خاں علیہ الرحمہ قندھار افغانستان کے قبیلہ بڑھیچ کے پٹھان تھے۔ مغلیہ دور حکومت میں لاہور تشریف لائے اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، لاہور کا شیش محل ان کی جاگیر تھا، لاہور سے آپؒ دہلی تشریف لائے، آپؒ کی بہادری پر آپؒ کو شجاعت جنگ کا خطاب بھی ملا،ان کے صاحبزادہ حضرت شاہ محمد سعید یار خاں علیہ الرحمہ کو مغلیہ سلطنت نے ایک جنگی مہم سر کرنے روہیل کھنڈ بھیجا جس میں آپؒ نے فتح پائی اور پھر یہیں آپؒ کا وصال ہوا ،ان کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد اعظم خان علیہ الرحمۃ پہلے تو حکومتی عہدہ پر فائز رہے لیکن پھر امور سلطنت سے سبکدوشی حاصل کرکے عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے لگے اور آپؒ نے شہر بریلی کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ اس شہرِ بریلی میں مولانا شاہ محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے یہاں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوئی اور آج تک آپ ؒکے خاندان کے افراد یہیں آباد ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا حافظ شاہ محمد احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی ولادت 10 شوال المکرم 1272ہجری بمطابق 14جون 1856ء بروز ہفتہ بوقت ظہر، محلہ جسولی بریلی شریف انڈیا میں ہوئی۔
آپؒ کا نام محمؒد رکھا گیا جبکہ آپؒ کے جد امجد حضرت علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ نے ’’احمد رضا‘‘ تجویز فرمایا جبکہ خود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نےغلامی رسول کے اظہار کیلئے اپنے نام سے پہلے عبد المصطفیٰ کا اضافہ فرمایا اور اپنا سن ولادت اس آیت مبارکہ سے نکالا:
اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وایدیھم بروح منہ
سورہ مجادلہ، آیت22، پارہ ۲۸
یعنی یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اﷲ نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی ہے۔
خود ہی ارشاد فرماتے ہیں، بحمداﷲ تعالیٰ بچپن سے مجھے نفرت ہے اعداء اﷲ سے، اور میرے بچوں کو بھی بفضل اﷲ تعالیٰ عداوت ِ اعداء اﷲ گھٹی میں پلا دی گئی ہے۔
بحمدا ﷲ تعالیٰ اگر میرے قلب کے دو ٹکڑے کئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لکھا ہوگا ،لا الہ الا اﷲ!
(جل جلالہ) دوسرے پر لکھا ہوگا محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) اور اس پر مستزادیہ تمنا کہ
کروں تیرے نام پہ جاں فدا
نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا
کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں
اور پھر اپنے اجداد کی فضیلت اور برکات کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں:
یہ سب برکات ہیں حضرت جد امجد علیہ الرحمہ کی، قرآن عظیم میں خضر علیہ السلام کے واقعہ میں ہے کہ دو یتیم ایک مکان میں رہتے تھے اس کی دیوار گرنے والی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا، خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کردیا۔ اس واقعہ کو فرمایا جاتا (وکان ابوھما صالحا )(سورہ کہف آیت ۸۲، پارہ۱۶)یعنی ان کا باپ نیک آدمی تھا، اس کی برکت سے یہ رحمت کی گئی۔ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں وہ باپ ان کی چودہویں پشت میں تھا صالح باپ کی یہ برکات ہوتی ہیں تو یہاں تو ابھی تیسری ہی پشت ہے دیکھئے کب تک برکات اس سلسلہ میں ہیں۔ (الملفوظ حصہ سوم)
حضرت علامہ مولانا محمد منشا ء تابش قصوری صاحب مد ظلہ العالی کی فرمائش پر مولانا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے آ پ کو اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا حلیہ مبار کہ اپنے مکتوب میں تحریر فرماکر بھیجا جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
ابتدائی عمر میں آپؒ کا رنگ چمکد ار گند می تھا۔
چہر ہء مبار ک پر ہر چیز نہایت موزوں و مناسب تھی۔
بلند پیشانی ،بینی مبارک نہایت ستواں تھی۔
ہر دو آنکھیں بہت موزوں اور خوبصورت تھیں ۔
نگاہ میں قدرے تیزی تھی جو پٹھان قوم کی خاص علامت ہے۔
ہر دو ابر و کمان ابرو کے پورے مصداق تھے۔
لاغری کے سبب سے چہر ہ میں گدازی نہ رہی تھی مگران میں ملاحت اس قد رعطا ہوئی تھی کہ دیکھنے والے کو اس لاغری کا احسا س بھی نہ ہوتا تھا۔
کنپٹیا ں اپنی جگہ بہت مناسب تھیں ۔
داڑھی بڑی خوبصورت گردار تھی۔
سر مبارک پرپٹے(زلفیں) تھے جو کان کی لو تک تھے۔
سرمبارک پر ہمیشہ عمامہ بند ھا رہتا تھا جس کے نیچے دو پلی ٹوپی ضر ور اوڑھتے تھے۔
آپؒ کا سینہ باوجود اس لا غری کے خوب چوڑا محسوس ہوتا تھا۔
گرد ن صراحی دار تھی اور بلند تھی جو سرداری کی علامت ہوتی ہے۔
آپؒ کا قد میانہ تھا۔
ہر موسم میں سوائے موسمی لباس کے آپ سپید(سفید) ہی کپڑ ے زیب ِ تن فرماتے ۔
موسم سرما میں رضائی بھی اوڑھا کرتے تھے۔
مگر سبز کا ہی اونی چادر بہت پسند فرماتے تھے اور وہ آپ کے تن ِمبارک پر سجتی بھی خوب تھی۔
آپؒ بچپن ہی میں کچھ روز گداز رہے پھر تو سب نے آپؒ کو چھریرا اور لاغر ہی دیکھا ۔
آپ ؒکی آواز نہایت پر درد تھی اور کسی قدر بلند بھی تھی۔
آپؒ جب اذان دیتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے۔
آپؒ بخاری طرز پر قرآن ِپا ک پڑھتے تھے۔
آپؒ کا طرز اداعام حفاظ سے جدا تھا۔
آپؒ نے ہمیشہ ہندوستانی جوتا پہنا جسے سلیم شاہی جوتا کہتے ہیں ۔
آپ ؒکی رفتا رایسی نرم کہ برابر کے آدمی کو بھی چلتا محسوس نہ ہوتا تھا۔
(مجدد اسلام از علامہ نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص 33,32)
مولانا حسنین رضا خان ؒصاحب لکھتے ہیں کہ اُن کے ہم عمروں سے اور بعض بڑوں کے بیان سے معلوم ہواہے کہ وہ بدوِ(ابتدائے) شعورہی سے نمازِ باجماعت کے سخت پابند رہے ،گویا قبلِ بلوغ ہی و ہ اصحابِ ترتیب کے ذیل میں داخل ہو چکے تھے اور وقت ِ وفات تک صاحب ِترتیب ہی رہے۔
(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص)48
جب بچپن میں آپؒ نے پہلا روزہ رکھا تو روزہ کشائی کی تقریب بڑی دھوم دھام سے ہوئی،
اس کا نقشہ مولا نا حسنین رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یوں کھینچتے ہیں:
سارے خاندان اور حلقہء احباب کو مدعو کیا گیا ، کھانے دانے پکے، رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرتؒ خوردسال تھے مگر آپؒ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا ۔ ٹھیک دوپہر میں چہرہ ء مبارک پر ہوائیاں اُڑنے لگیں ،آپؒ کے والدِ ماجد نے دیکھا تو انہیں کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرتؒ کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھا کر دیا اور فرمایا کہ کھالو! آپؒ نے فرمایا میرا تو روزہ ہے ۔ اُنھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہوا کرتے ہیں کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے ۔ تو اعلیٰ حضرتؒ نے عرض کی کہ’’جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے‘‘اس پر باپ آبدیدہ ہو گئے ۔ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ خداکے عہد کو یہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ۔ جس کو بھوک پیاس کی شدت، کمزوری اور کم سنی میں بھی ہر فرض کی فرضیت سے پہلے وفائے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپا س ہے ۔
(سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان مطبوعہ کراچی ص)87
آپؒ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجاتیں توکرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے۔ آپؒ کی عمر شریف جب کہ محض چار سال کی تھی ایک دن صرف بڑ ا سا کرتہ زیب ِ تن کئے ہوئے دولت کدہ سے باہر تشریف لائے تو آپ ؒکے سامنے سے چند بازاری طوائفیں گزریں ،جنہیں دیکھتے ہی آ پ نے کرتہ کا دامن چہرہ پر ڈال لیا ،یہ حالت دیکھ کر ان میں سے ایک عورت بولی’’واہ میاں صاحبزادے! آنکھیں ڈھک لیں اور ستر کھول دیا‘‘ آپؒ نے اِسی عالم میں بغیر اُن کی طرف نگاہ ڈالے ہوئے برجستہ جوا ب دیا’’جب آنکھ بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے او ر جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے‘‘۔
آپ ؒکے اس عارفانہ جواب سے وہ سکتہ میں آگئیں ۔ آ پؒ کے اِس مبارک عمل اور حیرت انگیز جواب کے پیشِ نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ؒننھی سی عمر میں اس قدر فکر و شعور رکھتے تھے تو پھر دامن کی بجائے اپنے ہاتھوں ہی سے کیوں نہ آنکھیں چھپالیں کہ اس صورت میں اپنا سِتر بے پردہ نہ ہوتا اور مقصد بھی حاصل رہتا ،لیکن تھوڑی سی توجہ کے بعد یہ امرواضح ہو جاتا ہے کہ اگر آپ ؒہاتھوں ہی سے آنکھیں چھپالیتے تو اس طوائف کا مسخرہ آمیز سوال نہ ہوتا اور نہ اُس کو وہ نصیحت آموز جواب ملتا جو آپ نے دیا اورنہ گزرنے والے دوسرے سامعین کو وہ سبق ملتا جو بصیر ت افروز ہے ۔ پھر آپ نے بالقصد و ہ طریقہ اختیار نہ فرمایا بلکہ من جانبِ اللہ غیر ارادی طور پر آپ نے دامن سے آنکھیں چھپائیں کہ بچپنے کی ادا یوں ہی ہوا کرتی ہے یہ اور بات ہے کہ اس ننھی ادا میں علم النفس کے حقائق پوشیدہ تھے۔
ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیہِ مَن یَّشَآءُ
(سوانح امام احمد رضا از علامہ بدر الدین قادری مطبوعہ سکھر ص)117
حضرتِ جناب سَیِّد ایوب علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو گھرپر ایک مولوی صاحب قراٰنِ مجید پڑھانے آیا کرتے تھے۔ ایک روز کا ذِکْر ہے کہ مولوی صاحِب کسی آیتِ کریمہ میں بار بار ایک لفظ آپ کوبتاتے تھے۔ مگر آپؒ کی زبان مبارک سے نہیں نکلتا تھا۔ وہ “زَبَر” بتاتے تھے آپ “زَیر” پڑھتے تھے یہ کیفیت آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دادا جان حضرت مولانا رضا علی خان صاحب رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے دیکھی حضور کواپنے پاس بلایا اور کلام پاک منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب نے غلطی سے زَیر کی جگہ زَبَر لکھ دیا تھا، یعنی جو اعلیٰ حضر ت رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کی زبان سے نکلتا تھا وہ صحیح تھا۔ آپ ؒکے دادا نے پوچھا کہ بیٹے جس طرح مولوی صاحب پڑھاتے تھے تم اُسی طرح کیوں نہیں پڑھتے تھے۔ عرض کی میں ارادہ کرتا تھا مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا ۔اِس قسم کے واقعات مولوی صاحب کو بار ہا پیش آئے تو ایک مرتبہ تنہائی میں مولوی صاحب نے پوچھا ،صاحبزادے ! سچ سچ بتا دو میں کسی سے کہوں گا نہیں، تم انسان ہو یا جن ؟ آپ ؒنے فرمایا کہ اﷲ کا شکر ہے میں انسان ہی ہوں، ہاں اﷲ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔
(حیات اعلٰی حضرت،ج ۱، ص۶۸، مکتبۃ المدینہ، بابُ المدینہ کراچی)
چھ سال کی عمر شریف میں ربیع الاول کے مبار ک مہینہ میں منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ایک بہت بڑے مجمع کے سامنے آ پ ؒنے پہلی تقریر فرمائی، جس میں کم وبیش دو گھنٹے علم و عرفا ن کے دریا بہائے اور سرور ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے ذکر ِولاد ت کے بیان کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر فرمایا، سامعین آپؒ کے علوم ومعارف سے لبریز بیان کو سن کر وجد میں آگئے اور تصویر ِحیرت بن گئے کہ ُان کے سامنے ایک کمسن بچے نے مذہبی دانشمندی کی وہ گراں مایہ باتیں بیان کیں جو بڑے بڑے صاحبانِ عقل و ہوش کے لیے باعثِ صد رشک ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رَبُّ العالمین اپنے جس بندے کو اپنی معرفت کی دولت سے سرفراز کرنا چاہتا ہے اس کی حیاتِ پاک کی ایک ایک گھڑی اور ہر ہر ساعت میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات عام انسانوں کے فہم اور ادراک سے باہر ہوتے ہیں، لیکن جن کو خداوندِ قدوس نے
بصارت و بصیر ت دونوں ہی کی روشنی عطافرمائی ہے وہ خوب سمجھتے ہیں کہ خاصانِ خدا کے سینے علوم ومعرفت کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور ان کے لیے بچپن،جوانی،بڑھاپاکوئی دور کوئی زمانہ رکاوٹ نہیں بن سکتا ۔
(مجد دِ اسلام از مولانا نسیم بستوی مطبوعہ لاہور ص)41
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃاللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم کچھ حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ علیہ الرحمہ سے اور اکثر کتب اپنے والد ماجد حضرت مولانا محمد نقی علی خاں علیہ الرحمہ سے پڑھیں، نیز چند ایک کتب کادرس حضرت مولانا سید ابوالحسین احمد نوریؒ اور حضرت مولانا عبدالعلی رامپوری علیہ الرحمہ سے بھی لیا۔
آپ ؒنے اپنے والد ماجد اور اساتذہ سے مندرجہ ذیل 21 علوم کی تعلیم حاصل کی۔
……1علم قرآن، ۲……علم تفسیر، ۳……علم حدیث، ۴……اصول حدیث، ۵……کتب فقہ حنفی، ۶……کتب فقہ شافعی و مالکی و حنبلی، ۷……اصولِ فقہ، ۸……جدلِ مہذب، ۹……علم العقائد والکلام(جومذاہب باطلہ کی تردید کے لئے ایجاد ہوا)، ۱۰……علم نحو، ۱۱……علم صرف، ۱۲……علم معانی، ۱۳……علم بیان، ۱۴……علم بدیع، ۱۵……علم منطق، ۱۶……علم مناظرہ، ۱۷……علم فلسفہ مدلسہ، ۱۸……ابتدائی علم تکسیر، ۱۹……ابتدائی علم ہیئت، ۲۰……علم حساب تا جمع، تفریق، ضرب، تقسیم،۲۱……ابتدائی علم ہندسہ۔
(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ )۹۸
جبکہ مندرجہ ذیل علوم آپؒ نے بغیر کسی استاد محض اپنی خداداد ذہانت اور صلاحیت سے حاصل کیئے:
۲۲……قرأت، ۲۳……تجوید، ۲۴……تصوف، ۲۵……سلوک، ۲۶……علم اخلاق، ۲۷……اسماء الرجال، ۲۸……سیر، ۲۹……تواریخ، ۳۰……لغت، ۳۱……ادب مع جملہ فنون، ۳۲……ارثماطیقی، ۳۳……جبرومقابلہ، ۳۴……حساب ستینی، ۳۵……لوغارثمات(لوگارثم)، ۳۶……علم التوقیت، ۳۷……مناظرہ، ۳۸……علم الاکر، ۳۹……زیجات، ۴۰……مثلث کُروی، ۴۱……مثلث مسطح، ۴۲……ہیئت جدیدہ(انگریزی فلسفہ)، ۴۳……مربعات، ۴۴……منتہی علم جفر، ۴۵……علم زائرچہ، ۴۶……علمِ فرائض، ۴۷……نظم عربی، ۴۸…… نظم فارسی، ۴۹…… نظم ہندی، ۵۰……انشاء نثر عربی، ۵۱……انشاء نثر فارسی، ۵۲……انشاء نثر ہندی، ۵۳……خط نسخ، ۵۴……خط نستعلیق، ۵۵……منتہی علم حساب، ۵۶……منتہی علم ہیئت، ۵۷……منتہی علم ہندسہ، ۵۸……منتہی علم تکسیر، ۵۹……علم رسم خط قرآن مجید۔
(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ )۹۹
مذکورہ بالا 59علوم و فنون میں سے 50 فنون پر آپؒ کی تصانیف موجود ہیں ذہانت کا یہ عالم تھا کہ دورانِ تعلیم صرف آٹھ برس کی عمر میں علم نحو کی کتاب ہدایت النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ دی۔ اور محض تیرہ سال دس ماہ اور پانچ دن کی عمر شریف میں مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کرکے 14شعبان 1286ھ بمطابق 19 نومبر 1869ء کو سند فراغت حاصل کی، اسی روز مسئلہ رضاعت پر ایک فتویٰ تحریر فرماکر والد ماجد کی خدمت میں پیش کیا، والد ماجد نے لائق اور ذہین بیٹے کی تحریر اور فتویٰ ملاحظہ فرماکر تحسین فرمائی اوراس دن سے فتویٰ نویسی کی خدمت آپؒ کے سپرد کردی۔
دینی علوم کے علاوہ دنیاوی علوم میں بھی آپؒ کو وہ مہارت حاصل تھی کہ بڑے بڑے ماہر فن آپ ؒکے سامنے طفل مکتب نظر آتے تھے چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر جنہوں نے ہندوستان کے علاوہ یورپ کے ممالک میں تعلیم پائی تھی اور ریاضی میں کمال حاصل کیا تھا اور ہندوستان میں کافی شہرت رکھتے تھے اتفاق سے ان کو ریاضی کے کسی مسئلہ میں اشتباہ ہوا ۔ ہر چند کوشش کی مگر وہ مسئلہ حل نہ ہوا، چونکہ صاحبِ حیثیت تھے اور علم کے شائق، اس لئے قصد کیا کہ جرمن جاکر اس کو حل کریں۔ حسن اتفاق سے انہوں نے حضرت مولانا سید سلیمان اشرف صاحب بہاری پروفیسر دینیات مسلم یونیورسٹی سے اس کا ذکر کیا۔ مولانا نے مشورہ دیا کہ آپ بریلی جاکر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ؒسے دریافت کیجئے انشاء اﷲ تعالیٰ وہ ضرور حل کردیں گے، وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ مولانا یہ آپ کیا فرمارہے ہیں میں کہاں کہاں تعلیم پاکر نہیں آیا ہوں اور حل نہ کرسکااور آپ ان صاحب کا نام لیتے ہیں جنہوں نے غیر ممالک میں تو کجا اپنے شہر کے کالج میں بھی تعلیم حاصل نہ کی وہ بھلا کیا حل کرسکتے ہیں۔ دو چار روز کے بعد مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے ان کو پریشان دیکھ کر دوبارہ یہی مشورہ دیا لیکن وائس چانسلر صاحب نے کہا وہ کیا حل کرسکتے ہیں اور یورپ جانے کا سامان شروع کردیا۔ مولانا موصوف نے جب تیسری بار بریلی جانے کو فرمایا تو وہ غصہ بھرے لہجے میں بولے کہ مولانا عقل بھی کوئی چیز ہے۔ آپ مجھے کیسی رائے دے رہے ہیں۔ اس پر مولانا نے فرمایا آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اتنے بڑے سفر کے مقابلے میں بریلی جانا تو کوئی چیز نہیں۔ علی گڑھ سے سیدھی گاڑی جاتی ہے چند گھنٹے کا سفر ہے آپ وہاں ہو تو آئیے پھر تو ان کی سمجھ میں بھی بات آگئی۔ چنانچہ مولانا سید سلیمان اشرف صاحب ان کو لے کر مارہرہ شریف پہنچے اور وہاں سے اعلیٰ حضرت ؒکے پیر زادہ والادرجت حضرت سید مہدی حسنؒ صاحب سجادہ نشین کو لیکر بریلی شریف اعلیٰ حضرتؒ کے دولتکدہ پر پہنچے اعلیٰ حضرتؒ نے مزاج پرسی فرمائی اور آنے کی غرض دریافت کی، وائس چانسلر صاحب نے بتایا کہ میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آیا ہوں۔ اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا پوچھئے، وائس چانسلر صاحب نے کہاکہ وہ ایسی بات نہیں ہے جسے میں اتنی جلدی عرض کردوں اعلیٰ حضرت ؒنے فرمایا کہ کچھ تو کہیے،وائس چانسلر صاحب نے مسئلہ بتایا تواعلیٰ حضرت ؒنے سنتے ہی فرمایا کہ اس کا جواب یہ ہے۔ یہ سن کر ان کو حیرت ہوگئی اور گویا آنکھ سے پردہ اٹھ گیا۔ بے اختیار بول اُٹھے کہ میں سنا کرتا تھا کہ عِلْمِ لَدُنِّی بھی کوئی چیز ہے۔ آج آنکھ سے دیکھ لیا میں تو اس مسئلہ کے حل کے لئے جرمن جانا چاہتا تھا کہ ہمارے پروفیسر صاحب جناب مولانا سید سلیمان اشرف صاحب نے میری رہبری فرمائی مجھے جواب سن کر تو ایسا معلوم ہورہا ہے گویا جناب اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔ سنتے ہی فی البدیہہ تشفی بخش نہایت اطمینان کا جواب دیا۔ پھر وائس چانسلر صاحب بہت شاداں و فرحاں علی گڑھ واپس ہوئے۔
(سوانح اعلیٰ حضرت صفحہ ۱۱۱تا ۱۱۳)
فن توقیت میں جو آپؒ کو ملکہ حاصل تھا اس کا ذکر حضرت علامہ بدر الدین احمد اس طرح کرتے ہیں کہ فن توقیت میں اعلیٰ حضرت ؒکے کمال کایہ عالم تھا کہ سورج آج کب نکلے گا اور کس وقت ڈوبے گا اس کو بلاتکلف معلوم کرلیتے، ستاروں کی معرفت اور ان کی چال کی شناخت پر اس قدر عبور تھا کہ رات میں تارا اور دن میں سورج دیکھ کر گھڑی ملالیا کرتے اور وقت بالکل صحیح ہوتا ایک منٹ کا بھی فرق نہ پڑتا۔
1291ھ میں آپؒ کی شادی ہوئی، آپؒ کے یہاں دو صاحبزادے،حجۃ الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ محمد حامد رضا ؒخاں اور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں علیہماالرحمہ اور پانچ صاحبزادیاں تولد ہوئیں۔
1295ھ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلویؒ، اپنے والد ماجد حضرت علامہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ کے ہمراہ مارہرہ شریف گئے اور وہاں حضرت علامہ مولانا سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپؒ کے پیرومرشد نے بیعت فرماتے ہی آپؒ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت عطا فرمائی۔
تحصیل علم کے فوراً بعد آپؒ نے تدریس اور افتاء کی طرف توجہ فرمائی۔ چونکہ بریلی شریف میں اس وقت کوئی مدرسہ نہیں تھا چنانچہ طلباء اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی طرف رجوع کرتے، انہیں دنوں کاایک واقعہ ملک العلماء حضرت علامہ محمدظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ اپنی تصنیف ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
اسی زمانے کا ایک واقعہ جناب مولوی محمد شاہ خاں عرف نتھن خاں صاحب بیان فرماتے تھے کہ ایک دن تین طالب علم نئے آئے اور اعلیٰ حضرتؒ سے پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا، میں نے دریافت کیا کہ کہاں سے آپ لوگ آئے ہیں، اس سے پہلے کہاں پڑھتے تھے وہ لوگ بولے دیوبند میں پڑھتے تھے وہاں سے گنگوہ گئے، اس کے بعد یہاں آئے ہیں میں نے کہا کہ یوں تو طلباء کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہاں پڑھائی بہتر ہے اسی لیے ایک جگہ جم کر بہت کم پڑھتے ہیں بلکہ دوچار جگہ جاکر ضرور دیکھا کرتے ہیں، مگر یہ عموماً ایسی جگہ ہوتا ہے جہاں کی تعریف انسان سنتا ہے لیکن میرے خیال میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ لوگوں نے دیوبند یا گنگوہ میں بریلی کی تعریف سنی ہو، اور اس وجہ سے یہاں کے مشتاق ہوکر تشریف لائے ہوں۔ بولے یہ آپ ٹھیک کہتے ہیں،اختلاف مذہب واختلاف خیال کی وجہ سے اکثر تو بریلی کی برائی ہی ہوا کرتی تھی،مگر ٹیپ کا بندیہ ضرور ہوتا کہ قلم کا بادشاہ ہے جس مسئلہ پر قلم اٹھادیا پھر کسی کی مجال نہیں کہ ان کے خلاف کچھ لکھ سکے، یہی دیوبند میں سنا اور یہی گنگوہ میں بھی۔ تو ہم لوگوں کے دلوں میں شوق وذوق ہوا کہ وہیں چل کر علم حاصل کرنا چاہیے جن کے مخالفین، فضل وکمال کی گواہی دیتے ہیں ۔
1295ھ میں اعلیٰ حضرت ؒاپنے والد ماجد کے ہمراہ حج بیت اﷲ کیلئے تشریف لے گئے،جہاں آپؒ نے اکابر علماء عرب سے سند حدیث حاصل فرمائی، ایک دن آپؒ مقام ابراہیم پر نماز ادا فرمارہے تھے کہ نماز کے بعد امام شافعیہ حضرت حسین ؒبن صالح جمال اللیل نے بغیر کسی تعارف کے آپؒ کا ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور دیر تک آپؒ کی پیشانی پکڑ کر فرمایا:
اِنِّیْ لَاَجِدُ نُوْرَ اللّٰہِ فِیْ ھٰذَا الْجَبِیْنِ۔
بیشک میں اﷲ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں۔
اور صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت فرمائی، اس سند کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسمیں امام بخاریؒ تک فقط گیارہ واسطے ہیں۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت،صفحہ)۱۳۳
دوسرا حج آپؒ نے 1323ھ میں اپنی اہلیہ،برادر اصغر حضرت مولانا محمد رضاخاںؒ اور فرزند اکبر حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں علیہم الرحمہ کے ساتھ فرمایا،اس بار جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو شوق دیدار میں دیر تک مواجہہ اقدس کے سامنے درود شریف پڑھتے رہے، اس یقین کے ساتھ کہ سرکار ابدقرار عزت افزائی فرمائیں گے۔ لیکن پہلی شب ایسانہ ہوا تو کچھ کبیرہ خاطر ہو کر ایک غزل لکھی جس کا مطلع یہ ہے۔
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
اس کے مقطع میں اسی تڑپ کی طرف اشارہ کیا،فرماتے ہیں۔
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
یہ غزل مواجہہ اقدس میں عرض کرکے انتظار میں مؤدب بیٹھے تھے کہ قسمت جاگ اٹھی اور چشم سر سے بیداری میں سرکار ابدقرار ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
اتباع شریعت کا اس قدر التزام فرماتے کہ فرائض اور واجبات تو کجا سنن اور مستحبات پر بھی ہر ممکن عمل فرماتے چنانچہ سید ایوب علی ؒصاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کیلئے آنے میں اعلیٰ حضرتؒ کو کچھ دیر ہوگئی،نمازیوں کی نگاہیں باربار کا شانہ اقدس کی اٹھ رہی تھیں،اسی اثناء میں اعلیٰ حضرتؒ جلد جلد تشریف لائے، اس وقت قناعت علی ؒصاحب نے مجھ پراپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ اعلیٰ حضرتؒ مسجد میں پہلے دایاں قدم رکھتے ہیں یا بایاں،مگر قربان اس ذات کے کہ دروازۂ مسجد کے زینے پر جس وقت قدم مبارک پہنچا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو دایاں اور اسی پربس نہیں ہر صف پر تقدیم داہنے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلے پر قدم پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے اور اسی پر کہاں منحصر ہے بینی پاک کرنے اور استنجاء فرمانے کے سوا حضور کے ہر فعل کی ابتداء سیدھے ہی جانب سے ہوتی تھی۔
اگر کسی کو کوئی شے دینا ہوتی اور اس نے الٹاہاتھ لینے کو بڑھایا،فوراً اپنا دست مبارک روک لیتے اور فرماتے سیدھے ہاتھ میں لیجئے،الٹے ہاتھ سے شیطان لیتا ہے۔
اعدادِ بسم اﷲ شریف 786 عام طور سے لوگ جب لکھتے ہیں تو ابتدا ’’7‘‘ سے کرتے ہیں پھر’’8‘‘ لکھتے ہیں اس کے بعد ’’6‘‘مگر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سیدھی طرف سے ابتداء کرتے ہوئے پہلے ’’6‘‘تحریر فرماتے پھر ’’8‘‘اور اس کے بعد’’7‘‘تحریر فرماتے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے بے مثال قوت حافظہ عطا فرمائی تھی چنانچہ حضرت علامہ محمد ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
اعلیٰ حضرتؒ ایک مرتبہ پیلی بھیت تشریف لے گئے اور حضرت استاذی مولانا وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ کے مہمان ہوئے۔ اثنائے گفتگو میں عقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامیہ کا ذکر نکلا۔ حضرت محدث سورتی ؒصاحب نے فرمایا!میرے کتب خانہ میں ہے۔ اتفاق ہے کہ اعلیٰ حضرت ؒکے کتب خانہ میں کتابوں کا کافی ذخیرہ تھا، اور ہر سال معقول رقم کی نئی نئی کتابیں آیا کرتی تھیں۔ مگر اس وقت تک عقود الدریہ منگوانے کا اتفاق نہ ہواتھا، اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا!میں نے نہیں دیکھی ہے،جاتے وقت میرے ساتھ کردیجئے گا۔ حضرت محدث سورتی ؒصاحب نے بخوشی قبول کیا، اور کتاب لاکر حاضر کردی۔ مگر ساتھ ساتھ فرمایا کہ جب ملاحظہ فرمالیں تو بھیج دیجئے گا۔ اسلئے کہ آپ کے یہاں تو بہت کتابیں ہیں۔ میرے پاس یہی گنتی کی چند کتابیں ہیں،جن سے فتویٰ دیا کرتا ہوں۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا!اچھا۔اعلیٰ حضرت کا قصد اسی دن واپسی کا تھا،مگرا علیٰ حضرت کے ایک جاں نثار مرید نے حضرت کی دعوت کی، اس وجہ سے رک جانا پڑا۔ شب کو اعلیٰ حضرت نے عقود الدریہ کو جو ایک ضخیم کتاب دوجلدوں میں تھی،ملاحظہ فرمالیا۔ دوسرے دن دوپہر کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کرگاڑی کا وقت تھا۔ بریلی شریف روانگی کا قصد فرمایا۔جب اسباب درست کیا جانے لگا تو عقود الدریہ کو بجائے سامان میں رکھنے کے فرمایا کہ محدث صاحب کو دے آؤ، مجھے تعجب ہوا کہ قصد لے جانے کا تھا، واپس کیوں فرمارہے ہیں؟ لیکن کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ حضرت محدث سورتیؒ صاحب کی خدمت میں میں نے حاضر کی،وہ اعلیٰ حضرتؒ سے ملنے اور اسٹیشن تک ساتھ جانے کیلئے اپنے مکان سے تشریف لاہی رہے تھے کہ میں نے اعلیٰ حضرتؒ کا ارشاد فرمایا ہوا جملہ عرض کیا ، فرمایا!تم کتاب لیے میرے ساتھ واپس چلومیں اس کتاب کولیے ہوئے حضرت محدث صاحب کے ساتھ واپس ہوا۔ حضرت محدثؒ صاحب نے اعلیٰ حضرت ؒسے کہا کہ میرا یہ کہنا کہ ’’جب ملاحظہ فرمالیں تو بھیج دیجئے گا‘‘ملال ہوا کہ اس کتاب کو واپس کیا۔ فرمایا!قصد بریلی ساتھ لے جانے کا تھا، اور اگر کل ہی جاتا تو اس کتاب کو ساتھ لیتا جاتا۔ لیکن جب کل جانا نہ ہوا تو شب میں اور صبح کے وقت پوری کتاب دیکھ لی اب لے جانے کی ضرورت نہ رہی۔ حضرت محدث سورتیؒ صاحب نے فرمایا! بس ایک مرتبہ دیکھ لینا کافی ہوگیا؟اعلیٰ حضرتؒ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے کہ دوتین مہینہ تک توجہاں کی عبارت کی ضرورت ہوگی،فتاویٰ میں لکھ دوں گا اور مضمون تو انشاء اﷲ عمر بھر کیلئے محفوظ ہوگیا۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت)
نیز ایک روز ارشاد فرمایا کہ بعض ناواقف لوگ میرے نام کے ساتھ حافظ لکھ دیا کرتے ہیں حالانکہ میں حافظ نہیں ہوں،ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر کوئی حافظ صاحب کلام پاک کا ایک رکوع ایک بار پڑھ کرسنادیں وہ مجھے یاد ہوجائیگا، وہ دوبارہ مجھ سے سن لیں،یہ کہہ کر اسی دن سے دور شروع فرمادیا اور تیس دن میں تیس پارے سنادیئے۔یوں ایک ماہ میں پورا قرآن مجید حفظ کرلیا۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے غلبہ علم کا یہ عالم تھا کہ جب صدرالشریعہ بدرالطریقہ مولانا حکیم محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ مصنف بہارِ شریعت نے قرآن مجید کے صحیح اردو ترجمہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عرض کی تو اعلیٰ حضرتؒ نے کثیر مشاغل دینیہ کی وجہ سے فرصت نہ پاتے ہوئے فرمایا کہ اتناوقت تو نہیں لیکن شام میں کاغذ قلم اور دوات لیکر آجایا کریں۔ چنانچہ حضرت صدرالشریعہ ؒحاضر ہوجاتے اور جتنا ممکن ہوتا اعلیٰ حضرتؒ بغیر کسی تفسیر و لغت کے فی البدیہہ ترجمہ ارشاد فرماتے جاتے، جیسے کوئی حافظ قرآن فر فر قرآنی آیات پڑھتا جاتا ہے بعد میں صدرالشریعہ ؒاس ترجمہ کو دیگر تفاسیر سے ملاتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلیٰ حضرت کا یہ فی البدیہہ ترجمہ معتبر تفاسیر کے عین مطابق ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے معمولات میں سے یہ بھی ہے کہ
آپؒ مساجد کا بہت ادب و احترام فرمایا کرتے ،جس کی چند جھلکیاں درجہ ذیل سطور میں پیش کی جاتی ہیں
جب بھی مسجد میں تشریف لاتے ہمیشہ وسطی در سے داخل ہوا کرتے ،اگرچہ آس پاس کے درواز وں سے داخل ہونے میں سہولت ہی کیوں نہ ہو،بعض اوقات اورادو وظائف مسجد شریف ہی میں بحالتِ خرام (چلتے ہوئے)شمالاً جنوباً پڑھا کرتے مگر منتہائے فرشِ مسجد سے واپسی ہمیشہ قبلہ رو ہو کر ہی ہوتی،کبھی پشت کرتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا ۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مطبوعہ لاہور ص,)261
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فریضہء فجر ادا کرنے کے لیے خلاف ِمعمول کسی قدر حضور(اعلیٰ حضرت) کو دیر ہو گئی ، نمازیوں کی نگاہیں بار بار کاشانہء اقدس کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اُس وقت برادرم قناعت علی نے اپنا یہ خیال مجھ سے کہا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ حضور دایاں قدم مسجد میں پہلے رکھتے ہیں یا بایاں ۔ مگرقربان اُس ذاتِ کریم کے کہ دروازہ ء مسجد کے زینے پر جس وقت قدمِ مبارک پہنچتا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، قدیمی فرش ِمسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا ، آگے صحن مسجد میں ایک صف بچھی تھی اس پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، اور اسی پر بس نہیں ہر صف پر تقدیم سیدھے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلیٰ پر قدمِ پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرشِ مسجد پر ایڑھی اور انگوٹھے کے بل چلا کرتے تھے اوردوسروں کو بھی نصیحت فرمایا کرتے کہ مسجد کے فرش پر چلتے ہوئے آواز پیدا نہیں ہونی چاہیے ۔
(حیات ِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص)862
حضرت ابو حامِد سیِّد محمد محدِّث کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ تکمیلِ جواب کے لیے جُزئِیّاتِ فِقْہ کی تلاشی میں جو لوگ تھک جاتے وہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں عَرض کرتے اور حوالہ جات طلب کرتے تو اُسی وقت آپ فرمادیتے کہ “رَدُّالمُحْتَار”جلد فُلاں کے فُلاں صَفَحہ پر فُلاں سَطر میں اِن الفاظ کے ساتھ جُزئِیّہ موجود ہے۔”دُرِّ مُخْتَار” کے فُلاں صَفَحے پر فُلاں سَطر میں عبارت یہ ہے۔ “عالمگیری”میں بقید جلد و صَفَحہ وَسَطر یہ الفاظ موجود ہیں۔ ہِندیہ میں خَیریہ میں “مَبْسُوط” میں ایک ایک کتاب فِقہ کی اصل عبارت مع صَفَحہ وسَطر بتادیتے اور جب کتابوں میں دیکھا جاتا تو وُہی صَفَحہ وسَطر و عبارت پاتے جو زَبانِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا تھا۔ اِس کو ہم زِیادہ سے زِیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ خُداداد قوّتِ حافِظہ سے چودہ سو سال کی کتابیں حِفظ تھیں۔
(حیاتِ اعلٰی حضرت ، ج ۱، ص ۲۱۰ ،مکتبۃ المدینہ ، بابُ المدینہ کراچی)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سراپا عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کا نُمُونہ تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نعتیہ کلام (حدائقِ بخشش شریف) اس اَمرکا شاہد ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نوکِ قلم بلکہ گہرائی قَلب سے نِکلا ہوا ہر مِصرَعَہ آپ کی سروَرِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم سے بے پایاں عقیدت و مَحَبَّت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کبھی کسی دُنیوی تاجدار کی خوشامد کے لیے قصیدہ نہیں لکھا، اس لیے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور تاجدارِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کی اِطاعت و غلامی کو دل وجان سے قبول کرلیا تھا۔ اس کا اظہار آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح فرمایا:
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
(تذکرہٗ امام احمد رضا ص۹ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی)
سوتے وَقت ہاتھ کے اَنگوٹھے کو شہادت کی اُنگلی پر رکھ لیتے تاکہ اُنگلیوں سے لفظ “اﷲ”بن جائے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پیر پھیلا کر کبھی نہ سوتے، بلکہ دا ہنی کروٹ لیٹ کر دونوں ہاتھوں کو ملا کر سر کے نیچے رکھ لیتے اورپاؤں مبارَک سمیٹ لیتے۔ اس طرح جسم سے لفظ”محمّد” بن جاتا۔
(حیات اعلٰی حضرت ، ج ۱ ،ص ۹۹، مکتبۃ المدینہ بابُ المدینہ کراچی)
یہ ہیں اﷲ کے چاہنے والوں اور رسولِ پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلّم کے سچے عاشِقوں کی ادائیں۔
نامِ خدا ہے ہاتھ میں نامِ نبی ہے ذات میں
مُہرِ غلامی ہے پڑی، لکھے ہوئے ہیں نام دو
ہم جس طرح اسلافِ صالحین سے آدابِ حدیث شریف کے متعلق پڑھتے سنتے آرہے ہیں اعلیٰ حضرتؒ اس کی عملی تفسیرتھے،حدیثِ پاک کے ادب کے حوالے سے چند نمونے ملاحظہ ہوں:
آپؒ درسِ حدیث بحالت قعود(دو زانوں بیٹھ کر) دیا کرتے ۔
احادیث کریمہ بغیر وضونہ چھوتے اور نہ پڑھایا کرتے ۔
کتب ِ احادیث پر کوئی دوسری کتا ب نہ رکھتے۔
حدیث کی ترجمانی فرماتے ہوئے کوئی شخص درمیانِ حدیث اگر بات کاٹنے کی کوشش کرتا تو آپ ؒسخت ناراض ہو جاتے۔
یہاں تک کہ جوش سے چہرہء مبارک سرخ ہو جاتا۔
حدیث پڑھاتے وقت دوسرے پاؤں کو زانوپر رکھ کر بیٹھنے کو ناپسند فرماتے ۔
(امام احمد رضا ؒاور درسِ ادب از مفتی فیض احمد اُویسی مطبوعہ مکتبہ اہلِ سنت فیصل آباد ص )16
مولانا فیض احمد اویسی صاحب اعلیٰ حضرتؒ کے عشق و ادب پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں:
پارہ ء دل بھی نہ نکلا تم سے تحفے میں رضا
اُن سگانِ کو سے اِتنی جان پیاری واہ واہ
دیارِ حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کے کتوں کو دل کا نذرانہ پیش کرنے کے علاوہ امام احمد رضا شہر ِحبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی چڑیوں کو دعوتِ شوق پیش کرتے ہیں کہ
صحرائے مدینہ کی چڑیو! آؤ میں تمہاری بلائیں لوں ۔تمہارے لئے اپنے جسم کا پنجرہ بناؤں ۔اس میں تمہارے بیٹھنے کے لئے اپنے دونینوں کی جگہ بناؤں۔تمہارے کھانے کے لیے اپنے کلیجے کا چوگا بنا کر حاضر کروں۔اگر پانی مانگو تو آنسوؤں سے اپنی ہتھیلیاں بھرکر پیش کر وں۔اوراگر تمہیں دھوپ کی شدت سے اذیت ہو تو تم پر اپنے بالوں کا سایہ کردوں ۔سبحان اللہ بزبان ہندی شہر حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی چڑیوں کی دعوت کا منظر ملاحظہ ہو:
میں بھارو چھنے من کا پنجر ابناؤں
نینن کی رکھ دیوں د ورکریّاں
میں اپنے کر کر جوا کا چوگا بناؤں
جو جل مانگو روروبھر دیوں تلیّاں
واہوماں تمکا جوگھا مے ستاوے
کیسن کی کردیوں تم پر چھیّاں
عاشق اور پھر عشق حبیب خداصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کی شان کیا ہے ۔ امام احمد رضا ؒکو قدرت نے کتنی فیاضی کے ساتھ یہ دولتِ عشق عطا فرمائی ہے۔
(امام احمد رضا اور درسِ ادب از مفتی فیض احمد اُویسی مطبوعہ مکتبہ اہلِ سنت فیصل آباد ص )24
تاریخ گوئی کیا ہے؟
کسی واقعہ کو ایسے اعداد میں ظاہر کرنا جس کے الفاظ بحسابِ ابجد جوڑنے سے زمانہء وقوع ظاہر ہو،مثلاً اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے’’تَجَلِّیُ الیَقِین بِاَنَّ نَبِیِنَا سَیِّدَِ المُرسَلِین‘‘ اگر اس کے عدد جمع کیے جائیں تو اس کا سنِ تصنیف نکل آتا ہے جو کہ 1305ھ ہے۔
مولانا ظفرالدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
عالمُ الغیبِ والشہادۃجلَّ جلالہٗ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے اعلیٰ حضرت ؒکو جملہ کمالاتِ انسانی کہ جو ایک ولی اللہ یکتائے زمانہ میں ہونے چاہئیں،بروجہ ِکمال جمع فرما دیا تھا، جس وصف ِکمال کو دیکھئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اِسی میں تمام عمر صرف فرماکر اس کو حاصل فرمایا ہے اور اس میں کمال پیدا کیا ہے،حالانکہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض موہبتِ عظمیٰ ونعمت کبریٰ ہے ،ایک ادنی توجہ سے زیادہ اِس کی طرف کبھی توجہ صرف نہیں فرمائی، انہی علوم میں تاریخ گوئی بھی ہے، اس میں وہ کمال اور ملکہ تھا کہ انسان جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا ہے اعلیٰ حضرت اتنی دیر میں بے تکلف تاریخی مادے اور جملے ارشاد فرما دیا کرتے تھے ۔
اعلیٰ حضرت ،امام اہلسنت رحمۃاللہ علیہ کے بے مثال عشق کا اظہار آپؒ کے اُس منظوم سلام سے بھی ہوتا ہے جس کے بارے میں علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ اعلیٰ حضرت اگر اور کوئی کام نہ بھی کرتے تو یہ سلام ہی آپ کی عظمت کے لیے کافی تھا ۔
جی ہاں! یہ وہ سلام ہے جس کی گونج پا ک و ہند کے گوشے گوشے میں سنائی دیتی ہے بلکہ یہاں سے نکل کر پوری دنیا میں یہ سلام پڑھا جار ہا ہے۔مساجد میں نماز ِ جمعہ کے بعد اور محافلِ میلا د کے اختتام پر اس کو بطورِخاص پڑھا جاتا ہے ،اردو جاننے والوں میں شاید ہی کو ئی ایسا ہو جسے اس سلام کا کوئی شعر یاد نہ ہو ۔
علمائے کرام ارشاد فرماتے ہیں’’دو کلام‘‘سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں بہت مقبول ہیں ،ایک اردو کا اور ایک عربی کا،عربی کا تو’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ہے اور اُردو کا یہی اعلیٰ حضرت کا لکھا ہوا سلام’’مصطفی جان ِرحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ہے ۔
اس کی قبولیت میں کیسے شک ہو سکتا ہے جبکہ سنہری جالیوں کے رو برو زائرین جب سلام پیش کرتے ہیں تو اس مبارک سلام کے چند اشعار بھی سرکا ر صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں ۔
اس سلام کے والہانہ پن کی خصوصیت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے پیارے آقا و مولیٰ صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کے ہر ہر عضوِ پاک پر الگ الگ سلام پیش کیا ہے جس سے آپ کے عشقِ رسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا اور فناء فی الرسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم ہونے کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے۔
یہ سلام جہاں عشقِ رسول صلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا شاہکار ہے ،وہیں اعلیٰ حضرت ؒکے فنی تبحر کی گواہی بھی دے رہاہے ۔آپؒ کا یہ سلام ایک سو بہتر اشعار پر مشتمل ہے۔
( فیضان اعلیٰ حضرت ص281 مطبوعہ مکتبہ شبیر برادرز لاہور)
از استفادہ:
Mohaddis.com
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریباً 50علوم وفنون پر ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ ان علوم میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ جن کے آپؒ موجد تھے اور بعض ایسے کہ آپؒ کے وصال کے بعد اب ان علوم کی ادنی معلومات رکھنے والا بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ نیز مختلف فنون کی ڈیڑھ سو کے قریب مشہور کتابوں پر آپ نے حواشی تحریر فرمائے جو کسی طرح بھی مستقل تصانیف سے کم نہیں۔
آپؒ کا ترجمہ قرآن کنزالایمان،آپؒ کی قرآن فہمی کا بین ثبوت ہے، جبکہ میدان فقاہت اور تحقیق میں آپ کا عظیم علمی شاہکار آپؒ کا مجموعہ فتاویٰ،العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ،جو پرانی طباعت میں جہازی سائز کی 12 جلدوں پر مشتمل اور کئی ہزار صفحات پر پھیلاہوا ہے جبکہ جدید طباعت میں 26جلدوں پر مشتمل ہے۔ آپؒ کے فتاویٰ کو دیکھ کر مکہ مکرمہ کے جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا سید اسماعیل بن سید خلیل علیہماالرحمہ کو کہنا پڑا کہ!’’اگر امام اعظم ابوحنیفہ اس ہستی کو دیکھتے تو اپنے اصحاب میں شامل فرمالیتے‘‘۔
اور آپؒ تیسرا شاہکار آپ کا مجموعہ نعت’’حدائق بخشش‘‘ہے جو فن شاعری میں اپنی مثال آپ ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کو جتنے بھی علوم حاصل تھے ان میں سے بہت کم حصہ کسبی تھا اکثر علوم وفنون وہبی اور عطائی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کیسا ہی سوال آتا، چاہے اس کا تعلق لوگار تھم،فلکیات،ارضیات،معدنیات، طب،معاشیات،بنکاری، جغرافیہ،عمرانیات کسی شعبہ سے ہوتا یہ نہ کہا جاتا کہ اس شعبہ سے ہمارا تعلق نہیں،بلکہ اس کا ایسا تسلی بخش جواب دیاجاتا کہ اس فن کے ماہر دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ اور اس طرح نہ صرف لوگوں کی رہنمائی فرمائی بلکہ اس دور میں اٹھنے والے فتنوں کا سد باب کیا جبکہ اسوقت مسلمانان پاک وہند کے مذہبی،سیاسی،معاشی اور تمدنی نظریات وروایات پر تابرتوڑ حملے کئے جارہے تھے ایک طرف برسہا برس سے قائم مسلمانوں کے عقائد اور معمولات کو کفر اور شرک ٹھہرایا جانے لگا،حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے خاتم النبیین ہونے کے نئے معنی وضع کئے جارہے تھے،کہیں قرآن پر کہیں حدیث پر کہیں ائمہ دین پر تو کہیں اولیاء کاملین پر اعتراضات کئے جارہے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کو ہندؤوں کے قریب لاکر ہندوؤں کی خوشنودی کیلئے گائے کی قربانی ترک کرکے شعار اسلامی کو مٹانے کی کوشش کی جارہی تھی،تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے پردہ میں مسلمانوں کو بے دست وپاکیا جارہا تھا،تحریک ہجرت چلاکر مسلمانوں کو ان کی زمینوں اور جائیدادوں سے محروم کیاجارہا تھا،انگریزی اور ہندوانہ تہذیب کو مسلط کیاجارہا تھا اور جب گاندھی نے متحدہ قومیت کا نعرہ لگایا تو بڑے بڑے نامور لوگ اس سازش کو نہ سمجھ سکے اور گاندھی کی آندھی میں بہہ گئے۔اس وقت اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضاخاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ ہی تھے جنہوں نے دوقومی نظریہ کا علم بلند کیا،اور اپنی مجددانہ شان کے ساتھ ان اعداء دین وملت کو اسطرح للکارا کہ!
کلک رضا ہے خنجر خون خوار برق بار
اعداء سے کہدو خیر منائیں نہ شرکریں
غرض یہ کہ ہر محاذ پر آپؒ نے باطل اور فتنہ پرور لوگوں اور جماعتوں کا تن تنہا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اور چومکھی لڑائی لڑی۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے وہ وہ کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ جسکی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ چوٹی کے علماء عرب وعجم نے آپ کو چودہویں صدی کا مجدد قرار دیا۔ اگر ہم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی بے مثال علمی اور تحقیقی خدمات کو ان کی 65سالہ زندگی پر تقسیم کریں تو ہر 5گھنٹے میں اعلی ٰحضرت ؒاس امت کو ایک کتاب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں،بلاشبہ یہ وہ خدمات ہیں جو کوئی ادارہ اور انسٹیٹیوٹ ہی کرسکتا ہے جسے بریلی کی سرزمین کے اس بوریہ نشیں نے تن تنہا کر دکھایا۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے وصال سے تقریباً پانچ ماہ قبل کوہ بھوالی پر3 رمضان المبارک1339ھ کو اپنے وصال کی تاریخ اس آیت کریمہ سے نکالی!’’وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ ۔یعنی خدام چاندی کے برتن اور آبخورے لےکر(جنت میں) ان کے گرد گھوم رہے ہیں‘‘اور پھر اپنا مشن پورا کرکے25صفر المظفر(1340ھ/1921ء) بروز جمعۃ المبارک کو2 بجکر 38منٹ پر،عین اذان جمعہ کے وقت حی علی الفلاح کا نغمہ جانفزا سن کر داعی اجل کو لبیک کہا۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔